صندوق باہر نکال کر چارپائی پر رکھا تو چارپائی سے خون کے قطرے گرنا شروع ہوگئے اور پھر پلیٹ منگواکر نیچے رکھ دی تاکہ شہید کے خون کی بے حرمتی نہ ہو، پہلے ارادہ تھا کہ صندوق نکال کر فوری دوسری جگہ تدفین کردیں گے مگر خوشبو اور نور ہی نور کی وجہ سے ہمیں حوصلہ ملا اور ہم نے آرام سے منتقلی کی۔
گزشتہ سال 25 اکتوبر کو پاک فوج کے لانس نائیک محمد محفوظ شہید کا 72 واں یوم پیدائش منایا گیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944ء کو ضلع راولپنڈی کے گائوں پنڈ ملکان (محفوظ آباد) میں پیدا ہوئے انہوں نے 25 اکتوبر 1962ء کوپاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور 1965ء کی جنگ میں شاندار خدمات سرانجام دیں جبکہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی بارڈر پر دلیری اور شجاعت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان کی بہادری و جذبہ انہیں اس مقام پر لے گیا جس پر انہیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے دنیا و آخرت میں اپنا مقام بنالیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے بھائی محمد مصروف نےایک میڈیا نمائندے کو انٹرویو میں ایسا ایمان افروز واقعہ سنایا کہ سننے والے جھوم اٹھے انہوں نے بتایا کہ محفوظ شہید کیلئے نشان حیدر کے اعلان پر کرنل صاحب نے اُس وقت مجھے بلایا اور چھٹی کی ہدایت کی کیونکہ چیف آف آرمی صاحب نے گھر آنا تھا، جب میں گھر پہنچا تو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکا خان ہوکر چلے گئے تھے لیکن ان کی گھر موجودگی میں ہی 15 پنجاب کے سی او آئے انہوں نے آکر پھولوں کی چادر چڑھائی، عام قبرستان میں قبر تھی سلامی دی اور کہا کہ یہ جگہ بہت تنگ ہے اور یہاں سلامی وغیرہ مشکل سے ہوگی اور مزاربنانا ہےلیکن اس جگہ پر مزار نہیں بن سکتا کھلی جگہ میں ہوتو بہتر ہے، جس پر میں (محفوظ شہید کا بھائی) مزار کی منتقلی پرراضی ہوگیا کیونکہ اردگرد اپنی زمین موجود تھی یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی اور ڈرانے کا سلسلہ بھی عروج پر تھا۔ یہ 30 جون کا دن تھا اور شدید گرمی اور سخت دھوپ تھی، جیسے ہی قبر کشائی شروع کی تو بادل کا ایک ٹکڑا قبرستان پرچھاگیا اور اس سے بوندا باندی شروع ہوگئی، قبرستان کے علاوہ نواح میں کڑاکے کی دھوپ تھی، جب مٹی ہٹائی گئی تو اتنی پیاری خوشبو آنا شروع ہوگئی جو شاید اس سے پہلے کبھی نہ سونگھی تھی اور نہ محسوس کی تھی۔ قبر کشائی مکمل کرنے کے بعد جب صندوق کو اٹھانے لگے تو نیچے ہاتھ ڈالا تو پورا ہاتھ خون میں لت پت ہوگیا، نیچے سارا
خون تھا۔ صندوق باہر نکال کر چارپائی پر رکھا تو چارپائی سے خون کے قطرے گرنا شروع ہوگئے اور پھر پلیٹ منگواکر نیچے رکھ دی تاکہ شہید کے خون کی بے حرمتی نہ ہو، پہلے ارادہ تھا کہ صندوق نکال کر فوری دوسری جگہ تدفین کردیں گے مگر خوشبو اور نور ہی نور کی وجہ سے ہمیں حوصلہ ملا اور ہم نے آرام سے منتقلی کی۔ اس وقت کے جذبات بیان نہیں کرسکتا چونکہ پہلی تدفین کے وقت میں حاضر نہیں تھا اس پر درخواست کی کہ میں چہرہ مبارک دیکھنا چاہتا ہوں اورمقامی علماء نے اجازت دے دی۔ میں نے جب چہرہ دیکھا تو حیران رہ گیا شہید کی تدفین کے وقت تازہ شیو ہوئی تھی مگر 6 ماہ بعد ڈاڑھی مبارک بڑھی ہوئی تھی پھول بھی اسی طرح تروتازہ تھے جیسے ہم نے ابھی ابھی پودوں سے توڑ کر وہاں رکھے ہیں۔ خون جاری تھا یہ منظر وہاں موجود تقریباً اڑھائی ہزار لوگوں نے دیکھا۔ محفوظ شہید کی چارپائی پر ماں نے اپنے انتقال تک کسی کو سونے کی اجازت نہیں دی۔ والدہ کو ان سے بہت پیار تھا والدہ یہ دیکھ کر برداشت نہیں کرسکتی تھیں، بہت سمجھایا کہ وہ جنتی ہے اور آپ کو بھی جنت میں بلائے گا، والدہ جب تک زندہ رہیں بیٹے کی یاد میں تڑپتی رہیں بالآخر اپنے بیٹے کے پاس جاکر انھیں سکون ملا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں